تار
English
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے
No Result
View All Result
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے
No Result
View All Result
No Result
View All Result
تار

پاکستان میں تعلیم کی کڑوی حقیقت

by ویب ڈیسک
مئی 22, 2025
پاکستان میں تعلیم کی کڑوی حقیقت
Share on FacebookShare on Twitter

تعلیم کو دنیا بھر میں ترقی کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں تعلیم کا مقصد نہ تو انسانی ذہن کی تربیت ہے اور نہ ہی معاشرے کی بہتری، والدین اپنی اولاد کو بہترین تعلیمی مواقع فراہم کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ وہ اپنی ذاتی آسائشیں قربان کرتے ہیں، مالی بوجھ اٹھاتے ہیں، اور اپنے بچوں کو سخت تعلیمی مقابلے والے ماحول میں دھکیل دیتے ہیں، صرف اس امید پر کہ ان کا مستقبل روشن ہو گا۔ لیکن صرف ایک ڈگری حاصل کرنا، جو اکثر اوقات بے کار ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کو صرف کتابیں رٹوانا، نمبرز کی دوڑ میں دھکیلنا، اور عملی زندگی سے دور رکھنا آج ہمارے تعلیمی نظام کا خلاصہ بن چکا ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نصاب آج بھی 1980 کی دہائی جیسا ہے، جو صرف تھیوری پر مبنی ہے۔ بچوں کو تخلیقی سوچ، تنقیدی تجزیہ، اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتیں نہیں سکھائی جاتیں۔ عملی تعلیم، جیسے ڈیجیٹل لٹریسی، فنانشل مینجمنٹ، یا جدید سکلز، مکمل طور پر غائب ہیں۔  2024 کی "نیشنل ایجوکیشن پالیسی ڈیولپمنٹ فریم ورک” کے مطابق پاکستان میں صرف 5 فیصد بچے معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بقیہ 95 فیصد طلبہ ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں جہاں نہ نصاب عالمی معیار کے مطابق ہے، نہ اساتذہ تربیت یافتہ ہیں، اور نہ ہی انفراسٹرکچر مناسب ہے۔ 2 کروڑ 60 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جن میں 55 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار قوم کے تعلیمی مستقبل پر ایک بدترین دھبہ ہیں۔ ایک المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں 50 فیصد سے زائد اساتذہ کے پاس پیشہ ورانہ تدریسی تربیت نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر اساتذہ خود بھی رٹے کے نظام کا شکار رہے ہیں، اور وہی طریقہ آگے نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق یہ شرح کم از کم 4 سے 6 فیصد تک ہونی چاہیے۔ اس مالی کمی کا نتیجہ ناقص تعلیمی نظام، کم تنخواہ والے اساتذہ، اور سہولیات کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود، بہت سے پاکستانی گریجویٹس بیروزگار یا کم تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔ ہر سال ہزاروں انجینئرز، ڈاکٹرز اور بزنس گریجویٹس پیدا کیے جا رہے ہیں، مگر نوکریاں محدود ہیں، اور مقابلہ شدید۔ یہ بحران کئی وجوہات کی بنیاد پر پیدا ہوا ہے۔ پاکستانی تعلیمی ادارے نظریاتی تعلیم پر زور دیتے ہیں اور عملی مہارتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ گریجویٹس کے پاس اکثر مسئلہ حل کرنے اور ڈیجیٹل مہارتوں کی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ جدید کیریئرز کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ترقی یافتہ ممالک میں فنی تعلیم کو بنیادی تعلیم کا حصہ بنایا جاتا ہے، جبکہ پاکستان میں سب کو ایک ہی تعلیمی ڈگر پر ڈالا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ڈگری تو مل جاتی ہے، مگر عملی مہارتیں نہیں ہوتیں۔ طلبا کو فری لانسنگ، کاروبار یا گیگ اکانومی جیسے کیریئرز کے بارے میں بہت کم بتایا جاتا ہے، حالانکہ یہ شعبے دنیا بھر میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ زیادہ تر خاندانوں کے نزدیک ایک "مستحکم” سرکاری نوکری ہی کامیابی کی علامت ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو تخلیقی شعبوں میں جانے سے روکا جاتا ہے۔ تعلیمی کامیابی کے دباؤ نے طلبا کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ڈپریشن، بے چینی اور خودکشی کے رجحانات خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ اول نمبر سے کم کو ناکامی سمجھنا طلبا کے اعتماد کو توڑ دیتا ہے اور ایک ایسا ذہنی ماحول پیدا کرتا ہے جو رٹے کو اصل علم سے بہتر سمجھتا ہے۔

بشکریہ سوشل میڈیا

معاشرتی دباؤ کے خوف سے طلبا اپنی اصل دلچسپیوں کو چھپاتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ فنکارانہ صلاحیت رکھتا ہے تو اُسے فنون لطیفہ کی تعلیم سے روک دیا جاتا ہے کیونکہ "لوگ کیا کہیں گے؟”۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ یا ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھنے والے طالب علم کو زبردستی انجینئرنگ یا میڈیکل میں بھیج دیا جاتا ہے، کیونکہ یہی شعبے خاندان میں عزت اور شادیوں میں ترجیح بنے ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان کو مسائل کے حل کرنے والے، اور آزاد سوچ رکھنے والے نوجوان پیدا کرنے ہیں، تو والدین کو کامیابی کے تصور کو بدلنا ہوگا۔ ایک صحت مند تعلیمی ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ کیسے؟ کامیابی صرف ڈاکٹر یا انجینئر بننے میں نہیں، دنیا بدل رہی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا، فری لانسنگ، کاروبار، اور ہنر مند شعبے اب بہترین اور منافع بخش کیریئر فراہم کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ متبادل راستوں کو قبول کریں اور بچوں کو ان کی دلچسپیوں کے مطابق ترقی کرنے دیں۔ بچوں کو رٹا لگوانے کے بجائے، انہیں تنقیدی سوچ، مسئلہ حل کرنے، اور عملی تعلیم کی طرف راغب کریں۔ کوڈنگ، عوامی تقریر، کاروباری انتظام، اور مالیاتی تعلیم جیسی مہارتوں کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جائے جتنی تعلیمی اسناد کو دی جاتی ہے۔ مسلسل دباؤ اور مقابلے سے بچوں کی خود اعتمادی اور تخلیقی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو کھیلوں، فنون، اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے دیں، جو ان کی ذہنی صحت اور قائدانہ صلاحیتوں کو نکھارتی ہیں۔ صرف نوکری کی تلاش کے بجائے، بچوں کو خود کمائی کے قابل بنائیں۔ انہیں فری لانسنگ، چھوٹے کاروبار شروع کرنے، یا ڈیجیٹل مہارتیں سیکھنے کی ترغیب دیں۔ پاکستان میں پہلے ہی فری لانسنگ انڈسٹری بہت فعال ہے، جہاں نوجوان فائیور اور اپ ورک جیسے پلیٹ فارمز سے معقول آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر یہ خیال اب بھی کافی والدین کے لئے بے سود اور اجنبی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی کامیابی کو اپنی کامیابی کا پیمانہ نہ بنائیں۔ بچوں کو وہ شعبے چننے دیں جن سے انہیں خوشی ملتی ہے، نہ کہ وہ جن سے خاندان یا معاشرہ خوش ہوتا ہے۔ جہاں والدین کا کردار اہم ہے، وہیں تعلیمی اداروں اور پالیسی سازوں کو بھی چاہیے کہ نظام تعلیم کو جدید بنائیں۔ کچھ ضروری اصلاحات درج ذیل ہیں:

بشکریہ ٹوئٹر

مہارت پر مبنی تعلیم، عملی منصوبے، اور کاروباری پروگرام اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر متعارف کروائیں۔ اسکولوں میں کیریئر کونسلنگ اور رہنمائی کا بندوبست کیا جائے تاکہ طلبا کو روایتی شعبوں سے ہٹ کر بھی کیریئر کے مواقع سے آگاہی ملے۔ طلبا کو تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی تجربہ حاصل کرنے کے مواقع دیے جائیں۔ اسکولوں میں کونسلنگ سیشنز شروع کیے جائیں تاکہ طلبا تعلیمی دباؤ سے نمٹ سکیں۔ تعلیم کو صرف ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ سوچنے، تخلیق کرنے اور جدت لانے کی طاقت بننی چاہیے۔ بچوں کو امتحانات اور نوکریوں کی دوڑ میں دھکیلنے کے بجائے، ان کی مکمل شخصیت سازی، حقیقی زندگی کی مہارتوں اور ذاتی ترقی پر توجہ دی جائے۔

Previous Post

"بھارتی پراکسیز سن لیں، اب خاموشی نہیں!” اسحاق ڈار کا دوٹوک پیغام

Discussion about this post

تار

  • ہمارے بارے میں
  • پرائیویسی پالیسی

No Result
View All Result
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist