ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان کے صدر سبوخ سید نے عالمی یومِ آزادیٔ صحافت کے موقع پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں صحافت دباؤ، سنسرشپ اور خوف کے سائے میں سانس لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت صرف خبر رسانی کا نام نہیں بلکہ یہ سچ کی حفاظت، ضمیر کی گواہی اور عوام کے آئینی حقِ معلومات کا محافظ فریضہ ہے۔ سبوخ سید نے آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں کی رپورٹس کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ 2024 صحافیوں کے لیے دنیا بھر میں مہلک ترین سال ثابت ہوا، جس میں 124 صحافی جان کی بازی ہار گئے۔ صرف غزہ میں 85 صحافی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنے، جبکہ پاکستان میں کم از کم 6 صحافی قتل ہوئے۔ درجنوں دیگر صحافی معاشی مشکلات، ہراسانی، غیر یقینی مستقبل اور تنخواہوں کی بندش جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں “تحفظِ صحافی و میڈیا پروفیشنل ایکٹ 2021” اور سندھ میں “پروٹیکشن آف جرنلسٹس بل” جیسے قوانین کے باوجود صحافیوں کو درپیش خطرات کم نہیں ہو سکے، کیونکہ ان قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

انہوں نے خاص طور پر ڈیجیٹل میڈیا کے خلاف بڑھتی ہوئی پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا، اور بتایا کہ آزاد آوازیں اب آن لائن بھی محفوظ نہیں رہیں۔ بھارت کی جانب سے آزادیٔ صحافت کے عالمی دن سے صرف ایک روز قبل پاکستانی میڈیا آؤٹ لیٹس پر مکمل پابندی اس امر کی واضح مثال ہے کہ خطے میں اختلافِ رائے کو کچلنے کا رجحان شدت اختیار کر چکا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا الائنس فار پاکستان کے صدر سبوخ سید کا مزید کہنا تھا کہ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ان کہانیوں کی خاموشیاں ہیں جو اب سنائی نہیں دیتیں۔ ان میں سب سے بلند قیمت فلسطینی صحافیوں نے چکائی ہے۔ لیکن اس کے باوجود، پاکستان کے صحافی سچ اور آئین کے چراغ کو روشن رکھنے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں—یہی اصل صحافت ہے، اور یہی بیدار مغز مزاحمت ہے۔ انہوں نے ریاست، اداروں، اور عوام سے اپیل کی کہ وہ آزادیٔ صحافت کو صرف ایک آئینی حق نہیں بلکہ قومی سلامتی اور جمہوریت کی بنیادی شرط سمجھتے ہوئے اس کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
Discussion about this post