مودی حکومت کا سکھ گلوکارہ زارا گل کے گانے پر پابندی لگانے کا یہ اقدام ایک اور مثال ہے کہ سیاسی تناؤ کے دوران ثقافت کو کیسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ زارا گل کا گانا پاکستان کے ساتھ محبت اور احترام کی علامت ہے، جس میں گرو نانک کے خطے کے حوالے سے ایک خوبصورت پیغام دیا گیا ہے کہ ہم کسی بھی سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان کو کبھی دشمن نہیں سمجھ سکتے۔ یہ گانا بھارت میں گانے والی ایک سکھ گلوکارہ کی جانب سے پاکستان کی ثقافت اور مہمان نوازی کے بارے میں مثبت پیغام تھا، جسے بھارتی حکومت نے اپنی "نیشنل سیکیورٹی” کے نام پر روک دیا۔ اس گانے میں دکھائے گئے مناظر میں کرتاپور راہداری، پاکستان کے خوبصورت علاقے، اور اس خطے کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کیا گیا لیکن جب سیاسی کشیدگیاں عروج پر ہوتی ہیں، تو ایسے پیغامات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، جو عوام کے درمیان دوستی اور سمجھ بوجھ بڑھانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مودی سرکار کا یہ عمل نہ صرف ایک فنکار پر پابندی لگانے کا نتیجہ ہے، بلکہ اس کا مقصد پاکستانی عوام کی جانب سے بھارت کے ساتھ محبت کے پیغامات کو کمزور کرنا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے اس گانے کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ پابندیوں کے باوجود، یہ گانا سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے، اور بھارتی عوام بھی اس گانے کی خوبصورتی اور اس میں چھپے پیغامات کو سراہا رہے ہیں۔ اگرچہ بھارتی حکومت کی طرف سے اس گانے پر پابندی لگائی گئی، لیکن اس کا مقصد صرف ایک وقت کے لیے پیغام کو روکنا تھا۔ تاہم، یہ پیغام اب زیادہ طاقتور اور پھیل چکا ہے، اور لوگوں کے دلوں تک پہنچ رہا ہے۔
Discussion about this post