ریاض میں سعودی امریکا سرمایہ کاری فورم سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کو اپنے تنازعات کے حل کے لیے "اکٹھے ڈنر کی میز پر بیٹھنے” کا مشورہ دیا، جس کے چند گھنٹوں بعد واشنگٹن سے ایک اور اہم پیغام سامنے آیا کہ امریکا اب دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہ راست روابط کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ٹومی پِگوٹ نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے براہ راست سفارتی روابط کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حالیہ جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دونوں وزرائے اعظم کی امن پسندی کو سراہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں فریقین براہ راست رابطے قائم رکھیں، کیونکہ یہی مستقل امن کی ضمانت ہیں۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان نے دہشت گردی سے متعلق بھارت کے الزامات پر کوئی یقین دہانی کرائی ہے، تو پِگوٹ نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ ہم مذاکرات کی حمایت جاری رکھیں گے، اور چاہتے ہیں کہ خطے میں کشیدگی کم ہو۔ اسلام آباد کی جانب سے بھارت کے الزامات کو ہمیشہ سختی سے مسترد کیا گیا ہے اور یہ مؤقف اپنایا جاتا رہا ہے کہ نئی دہلی ان الزامات کو پاکستان مخالف بیانیے اور کارروائیوں کو جواز دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایک صحافی نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ آیا پاکستان کی کسی ایٹمی تنصیب سے تابکاری اخراج کی خبریں درست ہیں اور کیا اس حوالے سے کوئی امریکی ٹیم پاکستان بھیجی گئی، تو پِگوٹ کا کہنا تھا کہ میرے پاس فی الوقت اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں کہ اگر صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جائیں تو کیا وہ نوبیل انعام کے حق دار ہوں گے؟ تو پِگوٹ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ امن کے علمبردار ہیں، وہ ڈیل میکر بھی ہیں، اور جہاں ممکن ہو، وہ تنازعات کو ختم کرنے کے لیے تیار اور پُرعزم ہیں۔
Discussion about this post