سابق امریکی صدر جو بائیڈن میں پروسٹیٹ کینسر کی ایک شدید اور خطرناک قسم کی تشخیص ہوئی ہے، جو ان کے جسم میں پھیل کر ہڈیوں تک پہنچ چکی ہے۔ بائیڈن کے دفتر کے مطابق، ان کی عمر اس وقت 82 برس ہے اور وہ پیشاب سے متعلق علامات کے بعد جمعے کے روز میڈیکل چیک اپ کے لیے گئے تھے، جہاں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن اور ان کا خاندان اس وقت ماہر معالجین کے ساتھ علاج کے ممکنہ راستوں پر غور کر رہا ہے۔ اگرچہ کینسر کی نوعیت انتہائی جارحانہ بتائی جا رہی ہے، تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ ہارمون سینسٹو معلوم ہوتا ہے، جس کی بنیاد پر موثر علاج کی امید موجود ہے۔ میڈیکل ماہرین کے مطابق، ایسا کینسر جو جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل چکا ہو، اسے ’اسٹیج 4‘ یا آخری مرحلہ تصور کیا جاتا ہے۔ عام طور پر پروسٹیٹ کینسر کی زیادہ تر اقسام ابتدائی مرحلے پر ہی تشخیص پا لیتی ہیں، تاہم اس کیس میں بیماری کافی آگے بڑھ چکی ہے۔
سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (CDC) کے مطابق، 2021 میں امریکہ میں پروسٹیٹ کینسر کے 2 لاکھ 36 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے تقریباً 70 فیصد ایسے تھے جن میں بیماری صرف پروسٹیٹ تک محدود تھی، جبکہ 8 فیصد کیسز advanced stage پر پہنچ چکے تھے۔
یاد رہے کہ بائیڈن کی جسمانی اور ذہنی صحت ان کی صدارت کے دور میں مختلف مواقع پر زیربحث رہی۔ رواں سال جولائی میں انہوں نے اپنی دوبارہ انتخابی مہم اچانک ختم کر دی، جب کہ چند ہفتے بعد ایک مباحثے میں ریپبلکن رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف غیر مؤثر کارکردگی نے ان کی اپنی پارٹی میں بھی خدشات کو جنم دیا۔ سیاسی میدان میں شدید مخالف سمجھے جانے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر بائیڈن اور ان کی اہلیہ کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے لکھا:
"میلانیا اور میں جو بائیڈن کی حالیہ تشخیص پر افسردہ ہیں۔ ہم جل بائیڈن اور ان کے خاندان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں اور جو کے لیے جلد صحتیابی کی دعا کرتے ہیں۔”
بائیڈن کے دفتر کے مطابق، کینسر کا ’گلیسن اسکور‘ 9/10 ہے، جو بیماری کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ نیویارک کے ممتاز یورولوجسٹ ڈاکٹر ہربرٹ لیپور نے اس اسکور کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جدید تحقیق اور علاج کی بدولت ایسے مریض 5 سے 10 سال یا اس سے زائد عرصہ بھی صحت کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔ ڈاکٹر لیپور کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ دہائی میں پروسٹیٹ کینسر کے علاج میں غیر معمولی پیشرفت ہوئی ہے، جو مریضوں کے لیے امید کی کرن ہے۔
Discussion about this post