پیر اور منگل کی درمیانی شب ملیر جیل میں پیش آنے والا سنسنی خیز واقعہ ملکی جیل سیکیورٹی نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا، جب زلزلے سے متاثرہ کمزور دیوار توڑ کر 200 سے زائد قیدی جیل سے فرار ہوگئے۔
پولیس اور صوبائی حکام کے مطابق زلزلے کے بعد جیل میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا، جس کے نتیجے میں قیدیوں کو حفاظتی طور پر بیرکوں سے نکالا گیا۔ اسی دوران قیدیوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور جیل کی ایک کمزور دیوار کو دھکیل کر توڑ دیا، جس کے بعد بھگدڑ مچ گئی۔ واقعے کے دوران جیل میں شدید ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں، جس کے باعث تین ایف سی اہلکار اور دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے، جبکہ ایک قیدی کی موت اور تین کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔ ڈی آئی جی جیل خانہ جات حسن سہتو نے بتایا کہ فرار کے وقت جیل میں تقریباً چھ ہزار قیدی موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ قدرتی آفت کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق اب تک 80 سے زائد قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کیا جا چکا ہے، جنہیں قذافی ٹاؤن، شاہ لطیف ٹاؤن، اور بھینس کالونی سمیت مختلف علاقوں سے حراست میں لیا گیا۔ مفرور قیدیوں کی تلاش کے لیے شہر بھر میں ناکہ بندی، سرچ آپریشن اور انٹیلی جنس نگرانی کا عمل جاری ہے۔ وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے اس واقعے کو قدرتی آفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ زلزلے کے باعث جیل کی دیوار کمزور ہو چکی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ فرار ہونے والے قیدی معمولی جرائم میں ملوث تھے، اور کوئی دہشت گرد یا انتہائی خطرناک مجرم شامل نہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو شام کے وقت بیرکوں سے نکالنا ایک سنگین انتظامی غلطی تھی، اور جس نے بھی یہ فیصلہ کیا، اسے سزا دی جائے گی۔ آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق فرار ہونے والے قیدیوں کے خلاف الگ مقدمات درج کیے جا رہے ہیں، جن میں جیل توڑنے، پولیس پر حملے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے جیسی سنگین دفعات شامل ہوں گی۔حکام کے مطابق جیل کی مکمل گنتی کا عمل جاری ہے اور واقعے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے کراچی بھر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ کسی مشکوک شخص کی موجودگی کی صورت میں فوری پولیس کو اطلاع دیں۔
Discussion about this post