بھارتی مسلح افواج کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ مئی کے اوائل میں پاکستان کے ساتھ ہونے والی شدید جھڑپوں کے دوران بھارت کے کچھ جنگی طیارے تباہ ہوئے۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ چار روزہ یہ تنازع کبھی بھی ایٹمی جنگ کے دہانے تک نہیں پہنچا۔ یہ بیان ہفتے کے روز سنگاپور میں منعقدہ شنگریلا ڈائیلاگ میں شرکت کے موقع پر بلومبرگ ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران سامنے آیا۔ جنرل چوہان نے کہا:
"اہم بات یہ نہیں کہ طیارے گرائے گئے، بلکہ یہ ہے کہ وہ کیوں گرائے گئے۔”
"غلطیوں سے سیکھا، پھر کامیاب حملے کیے”
جنرل چوہان نے کہا کہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں جو غلطیاں ہوئیں، انہیں تسلیم کر کے فوراً درست کیا گیا اور صرف دو روز بعد بھارتی فضائیہ نے اپنے تمام طیارے دوبارہ اڑائے۔یہ تبصرے اب تک کسی بھارتی اعلیٰ فوجی اہلکار کی جانب سے پاکستان کے ساتھ حالیہ جھڑپ کے دوران بھارت کو ہونے والے نقصان پر سب سے واضح بیان تصور کیے جا رہے ہیں۔
تنازع کی بنیاد اور جوابی کارروائی
تنازع کا آغاز 22 اپریل کو بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے ایک بڑے دہشتگرد حملے سے ہوا تھا، جس میں 26 شہری جاں بحق ہوئے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جبکہ اسلام آباد نے مداخلت کی تردید کرتے ہوئے آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کی تھی۔ یکم مئی سے 4 مئی تک جاری رہنے والی جھڑپ کو دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان نصف صدی کا بدترین تصادم قرار دیا جا رہا ہے، جس میں فضائی حملے، ڈرون، میزائل، توپ خانہ اور چھوٹے ہتھیار استعمال کیے گئے۔
ایٹمی جنگ کے امکانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا: چوہان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ امریکا نے ایٹمی جنگ کو روکنے میں کردار ادا کیا، جنرل چوہان نے کہا کہ یہ معاملہ "بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا” ہے۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی نوبت نہیں آئی۔انہوں نے کہا:
"میری رائے میں روایتی جنگ اور ایٹمی جنگ کے درمیان واضح فاصلہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ رابطے کے ذرائع ہمیشہ کھلے رہے، اور حالات کو قابو میں رکھنے کے کئی درمیانی اقدامات ممکن تھے۔”
پاکستانی چینی ہتھیار بے اثر رہے: بھارت کا دعویٰ
جنرل چوہان نے پاکستان کو چین کی جانب سے ملنے والی عسکری معاونت کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی دفاعی نظام "کام نہ آ سکے”۔ بھارتی وزارت دفاع سے منسلک ایک تحقیقی ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ چین نے پاکستان کو سیٹلائٹ معاونت اور فضائی دفاعی نظام فراہم کیا،
سفارتی محاذ پر بھی سرگرمیاں جاری
دونوں ممالک نے حالیہ تصادم کے بعد عالمی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے مختلف بین الاقوامی دارالحکومتوں میں سفارتی وفود بھی روانہ کیے ہیں۔ جنرل چوہان کے مطابق اس وقت جنگ بندی قائم ہے، مگر اس کی مستقل نوعیت پاکستان کے آئندہ اقدامات پر منحصر ہوگی۔ انہوں نے کہا:
"ہم نے واضح ریڈ لائنز (سرخ لکیر) طے کر دی ہیں، اور مستقبل کا انحصار ان پر عمل درآمد سے جُڑا ہے۔”
Discussion about this post