پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن ڈی سی میں سفارتی روابط کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اعلیٰ امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں، جن میں انہوں نے پاکستان کے امن، علاقائی استحکام اور انصاف کے عزم کو اجاگر کیا، خاص طور پر بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں۔ بلاول بھٹو زرداری نے سینیٹر جم بینکس سے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی پر کھل کر تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی سمجھوتے میں سہولت فراہم کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کو سراہا اور اسے خطے میں وسیع تر امن کی کوششوں کا ایک موقع قرار دیا۔ بلاول نے بھارت کی جانب سے مسلسل اشتعال انگیزیوں، بھارتی غیرقانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر (IIOJK) میں انسانی بحران، اور بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کی معطلی جیسے اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا، جو خطے کے آبی تحفظ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور خطرناک مثال قائم کر رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ عسکری اقدامات مسئلے کا حل نہیں بلکہ صرف سفارتکاری اور بامعنی مکالمہ ہی جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
ایک اور ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری نے ایوانِ نمائندگان کی سب کمیٹی برائے جنوبی و وسطی ایشیا کی رینکنگ ممبر، کانگریس وومن سڈنی کاملاگر-ڈوو سے گفتگو کی۔ اس ملاقات میں مودی حکومت کے تحت خطے کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر بات چیت ہوئی، جہاں نامعلوم عناصر کے واقعات کو پاکستان کے خلاف جارحانہ طرزعمل کا جواز بنایا جا رہا ہے۔ بلاول نے خبردار کیا کہ یہ روش دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ انہوں نے امریکا کی معاونت سے ہونے والی عارضی جنگ بندی کو تسلیم کیا لیکن بھارت کی جانب سے اسے محض "وقفہ” قرار دینے پر تنقید کی، جو اس کے امن کے لیے سنجیدہ نہ ہونے کا اشارہ دیتا ہے۔ بلاول نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے ذریعے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور عالمی برادری سے اس پر جوابدہی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اس وقت تک خطے کا محافظ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا جب تک وہ خود اپنے پڑوس کو غیرمستحکم کر رہا ہے، اور مسئلہ کشمیر کا منصفانہ اور پُرامن حل ناگزیر ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے سینیٹر کرس وین ہولن سے بھی ملاقات کی، جو کشمیر میں انسانی حقوق کے دیرینہ حامی ہیں۔ اس ملاقات میں IIOJK میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، رابطے کی بندش اور شہری آزادیوں پر پابندیوں پر گفتگو ہوئی۔ سینیٹر وین ہولن کو پاکستان کے اس مؤقف سے آگاہ کیا گیا کہ امن عمل صرف اسی صورت ممکن ہے جب وہ انصاف اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر جامع اور سب کو شامل کرنے والا ہو۔ بلاول نے سینیٹر کے خطے میں مسلسل دلچسپی پر ان کا شکریہ ادا کیا اور زور دیا کہ امریکا کو چاہیے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام دیرینہ تنازعات، خصوصاً مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے
Discussion about this post