خاتون اول اور رکن قومی اسمبلی آصفہ بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں 17 سالہ طالبہ ثناء یوسف کے سفاکانہ قتل پر شدید ردعمل دیتے ہوئے نہ صرف واقعے کی مذمت کی بلکہ ایک طاقتور اور جذباتی پیغام کے ذریعے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس سانحے پر انہوں نے ورثاء، اہلِ خانہ اور دکھ کی اس گھڑی میں سوگوار کمیونٹی سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ثناء یوسف کو زندگی گزارنے، خواب دیکھنے اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کا پورا حق حاصل تھا، اور جو کچھ اس کے ساتھ ہوا، وہ محض ایک پرتشدد واردات نہیں، بلکہ ’ناں‘ کہنے کی سزا تھی اور یہ ہمارے معاشرے کے لیے باعث شرم ہے۔ آصفہ نے اس بات پر زور دیا کہ مردانہ برتری پر مبنی نظام کی یہ ظالمانہ سوچ کہ کسی لڑکی کی مرضی یا انکار کو برداشت نہ کیا جائے، اب مزید کسی ثقافت یا روایت کے پردے میں چھپ کر باقی نہیں رہ سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت اور عورتوں کو خود مختار بنانے کی جو مشعل ان کی والدہ، شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے روشن کی تھی، اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس روشنی کو بجھنے نہ دیں۔ آج ہم سب پر فرض ہے کہ ثناء یوسف جیسی بیٹیوں کے لیے وہ تمام دروازے کھلے رکھیں، جن کے بند ہو جانے سے زندگیاں اجڑ جاتی ہیں۔
آصفہ بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا پر مقتولہ کے خلاف چلائی جانے والی منفی مہم اور کردار کشی کو بھی سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی لڑکی کی آن لائن سرگرمی چاہے وہ ٹک ٹاک ہو، کوئی تصویر یا ویڈیو کبھی بھی اس کے قتل کا جواز نہیں بن سکتی۔ اگر ہم اس منطق کو تسلیم کر لیں تو پھر ملک کی لاکھوں لڑکیاں خطرے میں ہیں۔ یہ سوچ صرف غیرمنصفانہ نہیں بلکہ سراسر غیر انسانی ہے۔ انہوں نے نوجوان لڑکیوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ خاموش نہ ہوں، اپنے خوابوں سے پیچھے نہ ہٹیں۔ اگر ہم ڈر کر پیچھے ہٹ گئے، تو جیت ان لوگوں کی ہوگی جو نفرت اور جبر کو فروغ دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یکجہتی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے، تو ہم ایک ایسا پاکستان بنا سکتے ہیں جہاں بیٹیوں کو ان کی موت پر نہیں، ان کی زندگی، کامیابی اور کردار پر سراہا جائے گا۔
Discussion about this post