تار
English
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے
No Result
View All Result
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے
No Result
View All Result
No Result
View All Result
تار

آہ ۔۔ پروفیسر افتخار احمد

by ویب ڈیسک
جون 3, 2025
آہ ۔۔ پروفیسر افتخار احمد
Share on FacebookShare on Twitter

کراچی کی سڑکیں خون سے نہلائی جا رہی ہیں۔ یہاں انسانی زندگی کی قیمت ٹرک کے ایک ٹوٹے ہوئے پرزے سے بھی کم ہے۔ یہاں قانون صرف امیروں کے لیے ہے، جبکہ عام آدمی کے لیے موت خاموشی سے آتی ہے۔ بے آواز، بے جواب۔ نہ کوئی سننے والا ہے، نہ انصاف دینے والا۔

کچھ روز قبل اس بے رحم، سنگدل اور خونخوار نظام کی لپیٹ میں ایک اور استاد  پروفیسر افتخار احمد، کھو دیا گیا۔ وہ محض ایک استاد نہیں، بلکہ علم کا ایک چراغ، ہزاروں شاگردوں کے ذہنوں کو منور کرنے والا ایک انسان۔ ایک باپ اور اپنے بچوں کا واحد سہارا، اپنے والدین کی امید اور اپنے کالج کا فخر، جس کے نام سے ہر آنکھ اشک بار ہوئی ہے۔

ہر صبح، ایک گھڑی کی طرح پروفیسر افتخار اپنی موٹر سائیکل پر ڈیوٹی پر نکلتے۔ وہ شاہ فیصل کالونی کے سپیریئر سائنس کالج میں ریاضی پڑھاتے تھے۔ اس روز وہ اپنے گھر سے معمول کے مطابق دفتر کے لئے نکلے اور راستے میں شرافی گوٹھ کے قریب، ایک بدمست ڈرائیور، جو اپنی بے سزائی کے نشے میں چور تھا، ایک بے قابو ٹرک سے پروفیسر افتخار کو کچل ڈالا۔ وہ سڑک پر بے یارو مددگار لہو سے لت پت پڑے اپنی موت کا انتظار کررہے تھے مگر ابھی زندہ تھے۔ اپنی آخری سانسوں میں انہوں نے اپنا نام اور علاقہ بتایا: "نام پروفیسر افتخار احمد، رہائش گلشن حدید” کہہ کر کچھ لمحے زندہ رہے اور پھر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔

کیا کوئی بتائے گا کہ اتنے بڑے نقصان اور جرم کی قیمت کون چکائے گا؟ افتخار اپنے پیچھے 4 بیٹیاں چھوڑ گئے۔ سب سے چھوٹی محض دو سال کی ہے۔ ایک پر امید گھر جو ہمیشہ کے لیے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ ان کے معصوم بچے خوف اور الجھن میں رو رہے ہیں، ان کے آنسو ایک ایسی حکومت پر سنگین الزام ہیں جو خاموش بیٹھی ہے۔ کیا پروفیسر افتخار کا واحد قصور یہ تھا کہ وہ ایک استاد تھے؟ کیا اگر وہ کسی وزیر کے بیٹے ہوتے تو ان کی موت اہم ہوتی؟ کیا تب ان کے خون کی کوئی قیمت ہوتی؟

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کراچی کی قاتل سڑکیں ٹرک، ٹینکر اور ٹریلر مافیا کے لئے کھیل کا میدان بن چکی ہیں۔ کراچی میں ڈمپرز، ٹرک اور واٹر ٹینکرز ایک بد مست ہاتھی کی طرح راہ گیروں اور سواروں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ دن رات تیز رفتاری سے دوڑتے ہیں، لوگوں کو پہیوں تلے کچلتے ہیں، جبکہ ڈرائیور منصوبہ بندی کے تحت فرار ہو جاتے ہیں۔ افتخار کا قاتل بھی فرار ہو گیا۔ پولیس نے محض ٹرک ضبط کر کے رپورٹ درج کر لی، جو کہ ایک معمول کا کام ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کارروائی صفر ہونی ہے۔

لیکن یہ محض غفلت نہیں؛ یہ ریاستی سرپرستی میں قتل ہے۔ یہ موت کی مشینیں طاقتور مافیا کے تحفظ میں چلتی ہیں۔ سڑکیں قتل گاہ بن چکی ہیں اور کوئی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں۔

یہ صرف افتخار کا قصہ نہیں۔ 2023 میں کراچی میں صرف موٹر سائیکل سواروں کے حادثات میں 400 سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں، جن میں اکثریت نوجوانوں اور تنہا کمانے والوں کی تھی۔ ٹریفک پولیس کے مطابق کراچی میں روزانہ اوسطاً 10 سے 12 روڈ حادثات  رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بائیکرز ہوتے ہیں، اور ان میں سے بیشتر حادثات میں ٹرک، ڈمپر یا ٹینکر شامل ہوتے ہیں۔

2022 سے 2024 کے دوران کراچی میں بھاری گاڑیوں سے متعلق مہلک حادثات میں 45 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ صرف کورنگی، لانڈھی، سپر ہائی وے اور لیاری ایکسپریس وے کے علاقوں میں ڈمپرز کے ہاتھوں 300 سے زائد شہری جان سے جا چکے ہیں۔ زیادہ تر کیسز میں ڈرائیور فرار ہو چکے اور عدالتی کارروائی کہیں ہوتی نظر نہیں آتی۔

یہ بھاری گاڑیاں اکثر بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ کے اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیوروں کے ہاتھوں چلائی جا رہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق کراچی میں چلنے والی 70 فیصد ہیوی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے پاس درست لائسنس ہی نہیں ہوتا۔

ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ محفوظ طریقے سے سڑکوں پر چل سکے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ٹرانسپورٹ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرے، ڈرائیوروں کے لیے لائسنسنگ کے سخت قوانین بنائے، اور سڑکوں پر نگرانی بڑھائے۔ لیکن صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں۔ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی جگہ پر انصاف کا مطالبہ کرے، تو قاتل اپنے انجام کو پہنچ سکتے ہیں۔

جس طرح گزشتہ دنوں ڈیفنس اتحاد کمرشل میں بہن کے سامنے رکشہ ڈرائیور پر تشدد کرنے والے ایک امیر زادے کو 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں گرفتار کیا گیا، کاش کہ اسی طرح پروفیسر افتخار احمد کے قتل میں ملوث اصل ملزمان، اور اس پورے نیٹ ورک کی سرکوبی کی جائے، تاکہ اصل مسئلے کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔

ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر معاشرہ چھوڑنا ہوگا۔ افتخار کی موت کوئی پہلی یا آخری موت نہیں، لیکن اگر ہم نے اب بیداری نہ دکھائی، تو یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

Previous Post

کراچی میں یوتھ کے لیے "ڈائیورسٹی کلچرل ٹور” کا انعقاد،

Next Post

شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 14 خوارج ہلاک

Next Post
پنجاب میں فوج طلب

شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کا آپریشن، 14 خوارج ہلاک

Discussion about this post

تار

  • ہمارے بارے میں
  • پرائیویسی پالیسی

No Result
View All Result
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist