امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مشرقِ وسطیٰ کے سفارتی مشن کا آغاز سعودی عرب سے کر دیا، جہاں ان کا شاندار استقبال سعودی ولی عہد نے کیا۔ اس دورے کے دوران غزہ میں جاری اسرائیل حماس جنگ، ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات اور اربوں ڈالرز کے تجارتی معاہدے کلیدی ایجنڈے میں شامل ہیں۔ ایئر فورس ون سے روانگی سے قبل وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے اسے "تاریخی دورہ” قرار دیا اور خوشخبری سنائی کہ امریکی اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کو رہا کرا لیا گیا ہے۔ وہ زندہ ہے، واپس آ رہا ہے، یہ لمحہ اس کے والدین کے لیے ایک عظیم خوشی ہے۔ اس دورے پر سب سے زیادہ نگاہیں غزہ کی جنگ پر مرکوز ہیں۔ یرغمالی کی رہائی کے بعد حماس نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی سفارتی کوششوں کو جاری رکھیں۔ اس کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے قطر میں مذاکرات کے لیے ثالث بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کا موجودہ دورہ بھی وہیں سے شروع ہو رہا ہے جہاں سے انہوں نے اپنی پہلی صدارت کا پہلا 2017 میں کیا تھا ۔ وہی دورہ جس میں مصر، سعودی عرب اور امریکہ کے رہنماؤں کی چمکتے گلوب والی مشہور تصویر سامنے آئی تھی تاہم اس بار ٹرمپ اسرائیل کا دورہ نہیں کر رہے، جس پر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ خلیجی ممالک کی بڑھتی ہوئی تزویراتی اہمیت اور ٹرمپ کے ذاتی کاروباری روابط کا مظہر ہے۔
Discussion about this post