امریکا کی ریاست میساچوسٹس کی ایک وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو معطل کر دیا ہے جس میں ووٹنگ کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیاں تجویز کی گئی تھیں۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ یہ حکم آئینی حدود سے تجاوز کرتا ہے کیونکہ انتخابی قواعد و ضوابط طے کرنا صدر کا نہیں بلکہ کانگریس کا اختیار ہے۔ ٹرمپ کے حکم میں شہریوں سے ووٹر رجسٹریشن کے وقت شہریت کے ثبوت مانگنے اور صرف اُن ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کو قابل قبول قرار دینے کی تجویز دی گئی تھی جو انتخابی دن تک موصول ہو جائیں۔ مزید یہ کہ ریاستوں پر زور دیا گیا تھا کہ اگر وہ وفاقی مالی امداد چاہتی ہیں تو ان نئے ضوابط پر عمل کریں۔ عدالتی فیصلے میں جج ڈینیز کیپر نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو ریاستی خودمختاری میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر کو اختیار نہیں کہ وہ پورے ملک کے لیے انتخابی طریقہ کار خود طے کرے۔ جج نے مزید کہا کہ اس حکم سے ریاستوں پر اضافی مالی بوجھ پڑے گا اور ان کی آئینی حیثیت متاثر ہو گی۔ یہ پہلا موقع نہیں جب عدالت نے ٹرمپ کے اس حکم کو روکا ہو۔ اس سے قبل واشنگٹن ڈی سی سمیت مختلف عدالتوں نے بھی اس کے متعدد نکات کو کالعدم قرار دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کا اقدام آزاد، شفاف اور محفوظ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے تھا، مگر عدالت نے اس مؤقف کو قبول نہیں کیا۔ دوسری جانب کئی امریکی ریاستوں نے فیصلے کو سراہا ہے اور اسے جمہوری اصولوں کی فتح قرار دیا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ امریکی انتخابی نظام میں صدر کے اختیارات کی حد بندی سے متعلق ایک اہم نظیر کے طور پر جانا جائے گا، جو مستقبل میں بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔
Discussion about this post