حالیہ ہفتوں کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تواتر کے ساتھ پاکستان اور اس کی قیادت کی تعریف کرتے نہیں تھک رہے۔ بالخصوص پاک بھارت جنگ کے تناظر میں وہ پاکستانی کردار کو قابل تحسین قرار دیتے ہیں جبکہ پاکستانیوں کو ” بہترین ” بھی تسلیم کیا۔ ٹرمپ نے اس جانب اشارہ بھی کیا کہ ان کی حکومت بہت جلد پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدے بھی کرنے جارہی ہے۔ امریکی صدر کے حالیہ بیانات میں مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیش قدمی کا عندیہ دیا گیا۔ پاکستان اور امریکا کے ” ساس بہو ” والے تعلقات میں برف پگھلنے کا عمل اسی ماہ سے شروع ہوا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں جب بھارتی جنگی جنون عروج پرپہنچا اور مودی سرکار نے رات کی تاریکی میں پاکستانی علاقوں پر حملہ کیا تو یہ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے اس واقعے کو سب سے پہلے ” شرمناک ” قرار دیا۔ یہ پاکستان کی بھارتی محاذ پر پہلی بڑی کامیابی ہے۔ امریکا بالخصوص صدر ٹرمپ کا پاکستان کے لیے نرم گوشہ یقینی طور پر پاکستانیوں کے لیے چونکا دینے سے کم نہیں تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ، جو 2016 سے 2020 تک امریکہ کے صدر رہے، اپنی پہلی مدت میں غیر روایتی سفارتی پالیسیوں، جارحانہ ٹویٹس اور براہ راست بیانات کے لیے مشہور رہے۔ پاکستان سے متعلق ان کا رویہ کبھی تلخ، کبھی نرم اور کبھی غیر متوقع رہا۔ ان کے ماضی کے بیانات میں جارحانہ انداز تھا لیکن اب دوسری بار صدر بننے کے بعد ان کے رویے میں پاکستان کے لیے دوستانہ انداز ہے اور یہی عمل نئی دہلی کو کھٹک رہا ہے۔ جنوری 2018 میں صدر ٹرمپ کا وہ سخت ٹوئٹ کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ امریکہ نے گزشتہ 15 برسوں میں بے وقوفی سے پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی اور نتیجے میں ہمیں صرف جھوٹ اور دھوکہ ملا ہے۔ یہ بیان امریکہ کی پاکستان کے ساتھ اُس وقت کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کا عندیہ تھا، جس کے بعد پاکستان کی فوجی امداد بھی معطل کر دی گئی۔ 2019 میں جب اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا تو ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیش کش لیکن یہ صرف زبانی سطح تک محدود رہی۔ جب جو بائیڈن نے 2021 میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا اعلان کیا تو ٹرمپ نے بائیڈن پر تنقید کی، مگر پاکستان پر اس حوالے سے کوئی خاص تنقیدی بیان نہیں دیا، حالانکہ افغانستان کی صورتحال میں پاکستان کا کردار اہم سمجھا جاتا رہا ہے۔
سال 2024 میں صدارتی مہم میں ٹرمپ نے دنیا بھر کی سیاست کو اپنی تقاریر کا حصہ بنایا لیکن پاکستان سے متعلق ان کا رویہ اور انداز نسبتاً خاموشی پر مبنی رہا۔ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ سے پہلے پاکستان سے متعلق کھل کر کوئی بیان نہیں دیا۔ ان کی توجہ چین، میکسیکو، یوکرین اور ایران جیسے دیگر ممالک پر مرکوز ہے۔ یہ خاموشی یا تو امریکہ پاکستان تعلقات کی موجودہ کم ترجیح کو ظاہر کرتی ہے یا ایک نئے تزویراتی رویے کی عکاسی رہی۔ بہرحال دوسری مرتبہ صدر کاعہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریر کے دوران بطور خاص پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کاوشوں کو پذیرائی کی نگاہ سے سراہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے کابل ایئرپورٹ پر 2021 کے دہشتگرد حملے کے مرکزی ملزم، داعش خراسان کے شریف کی گرفتاری میں مدد پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت نے اس گرفتاری میں اہم کردار ادا کیا اور امریکا اس تعاون پر مشکور ہے۔

صدر ٹرمپ کے حالیہ پاکستان کے حق میں بیانات کا سہرہ کامیاب پاکستانی سفارتی کاوشوں کو بھی جاتا ہے۔ بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور سفارتی حلقوں کے ذریعے پاکستان نے اپنا موقف دنیا کے سامنے بھرپور اور ٹھوس انداز میں پیش کیا ہے۔ پاکستان نے دنیا کو بالخصوص امریکا کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جس کی افواج ہی نہیں شہریوں نے بھی دہشت گردی کی بنا پر اپنی جان کا نذرایہ پیش کیا ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان امریکا کو اپنے موقف پرقائل کرانے میں کامیاب بھی ہوگیا۔ پاکستان کے لیے یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ امریکا کے صدر خود اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ پاکستانی بہترین ہیں ، قیادت لاجواب ہے اور اسی بنا پر اسلام آباد سے کئی تجارتی معاہدے کرنے جارہے ہیں۔ یقینی طور پر ان معاہدوں سے پاکستانی معیشت کو جو استحکام ملے گا وہ پاکستان کی خوش حالی اور ترقی کو ایک نئی سمت دے گی۔
Discussion about this post