امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اسرائیلی حملے سے متعلق ایک اہم انکشاف کیا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں اس کارروائی کے منصوبے کا پہلے سے علم تھا، تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکی فوج اس حملے میں شریک نہیں تھی۔ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کی خواہش ہے۔ اپنے بیان میں سابق صدر نے ایران کے جوہری عزائم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
"ہم نہیں چاہتے کہ ایران کے پاس ایٹم بم ہو،
ہم امید رکھتے ہیں کہ تہران مذاکرات کی راہ اختیار کرے۔”
ٹرمپ نے واضح کیا کہ سفارتکاری ہی وہ راستہ ہے جو خطے میں کشیدگی کو کم کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کے اس انکشاف کے بعد عالمی سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکا نے اس حملے میں براہِ راست شرکت نہیں کی، لیکن اس کی پیشگی معلومات اور خاموشی خطے میں اعتماد کے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل کی کارروائی منصوبہ بندی تھی، جس کی اطلاع چند عالمی حلقوں کو پہلے سے تھی۔ اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر امریکا کو پیشگی علم تھا، تو آیا اس کی سفارتی یا انٹیلی جنس سطح پر کوئی حمایت بھی شامل تھی یا نہیں؟
Discussion about this post