سپریم کورٹ آف پاکستان نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھتے ہوئے 13 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ اب جدید دور میں ڈیجیٹل شواہد کو بنیادی شہادت کا درجہ حاصل ہو چکا ہے، اور "سائلنٹ وِٹنس تھیوری” کے مطابق کسی عینی گواہ کی عدم موجودگی میں بھی ویڈیو اور تصویری ثبوت قابلِ قبول ہیں۔ جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قرار دیا کہ اگر ویڈیو فوٹیج کسی مستند اور قابلِ اعتماد نظام سے حاصل کی گئی ہو، تو وہ اپنی ذات میں ایک گواہ تصور کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں عدالت نے بینک ڈکیتی جیسے سابقہ مقدمات کی مثال دی جہاں بغیر کسی عینی گواہ کے صرف ویڈیو فوٹیج کو بنیاد بنا کر فیصلہ دیا گیا۔
ظاہر جعفر کو ریلیف صرف جزوی طور پر ملا
عدالتِ عظمیٰ نے ایک جانب جہاں ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھی، وہیں زیادتی کے الزام میں دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ اغوا کے الزام کے تحت دی گئی سزا ختم کرتے ہوئے مجرم کو بری کر دیا گیا، تاہم نور مقدم کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنے کے جرم میں سنائی گئی سزا برقرار رہی۔
فیصلے کی بنیاد ٹھوس شواہد پر
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ:
-
سی سی ٹی وی فوٹیج، ڈی وی آر اور ہارڈ ڈسک مجرم کے خلاف ناقابلِ تردید شہادت بنے۔
-
فوٹیج میں کوئی ردوبدل ثابت نہیں ہوا، اور ملزم کی شناخت درست پائی گئی۔
-
ڈی این اے رپورٹ سے جنسی زیادتی کی تصدیق ہوئی۔
-
مقتولہ کا خون آلہ قتل پر موجود تھا۔
-
مجرم نور مقدم کی موجودگی کا کوئی معقول جواز نہ دے سکا۔
فیصلے میں عدالت نے زور دیا کہ امریکہ سمیت کئی ممالک میں Silent Witness Doctrine کو وسیع پیمانے پر قبول کیا جا چکا ہے، اور پاکستان میں بھی ڈیجیٹل شواہد کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں رہا۔
شریک ملزمان کو قید کا عرصہ گزارنے پر رہا کرنے کا حکم
عدالت نے شریک ملزمان محمد افتخار اور محمد جان کی سزائیں برقرار رکھتے ہوئے انہیں اب تک کی قید کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا۔
Discussion about this post