وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ بجٹ 2024-25 میں تنخواہ دار طبقے کو ممکنہ حد تک ریلیف فراہم کیا گیا ہے، جبکہ ملکی معیشت کو برآمدات پر مبنی ماڈل کی جانب منتقل کرنے کے لیے تاریخی نوعیت کی کسٹم اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں۔ اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک میں 30 سال میں پہلی مرتبہ ایسی اصلاحات کی گئی ہیں جن کے تحت 7 ہزار ٹیرف لائنز میں سے 4 ہزار پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے جبکہ 2 ہزار 700 ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی کم کی گئی ہے۔ ان میں سے 2 ہزار لائنز خام مال سے متعلق ہیں، جس سے برآمدی لاگت میں کمی آئے گی اور پاکستانی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں مزید مسابقت کے قابل ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آئندہ سالوں میں ٹیرف میں مزید کمی لائے گی اور ٹیرف اسٹرکچر میں مجموعی طور پر 4 فیصد تک کمی کی جائے گی، تاکہ برآمدی شعبے کو فروغ دیا جا سکے۔
تنخواہ دار طبقے کے لیے ریلیف کی کوشش
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور ان کی بھرپور خواہش تھی کہ تنخواہ دار طبقے کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے، تاہم مالی وسائل کی محدود گنجائش کو مدِنظر رکھتے ہوئے تنخواہ دار طبقے کو مختلف سلیبز میں تقسیم کر کے انہیں سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ درمیانے درجے کے کارپوریٹ اداروں سے سپر ٹیکس میں کمی کا آغاز کیا گیا ہے، چاہے وہ 0.5 فیصد ہی کیوں نہ ہو، یہ ایک مثبت سگنل ہے کہ حکومت معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہے۔
ٹرانزیکشن کاسٹ اور ایکسائز ڈیوٹی میں کمی
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ خریداروں کے لیے ٹرانزیکشن کاسٹ کو کم کیا جائے تاکہ عام آدمی کو فائدہ ہو۔ اسی سلسلے میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو بھی بعض شعبوں میں ختم کر دیا گیا ہے تاکہ مارکیٹ میں اشیاء کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے۔
زرعی شعبے پر ٹیکس سے استثنا
محمد اورنگزیب نے بتایا کہ حکومت نے زرعی کھاد اور ادویات پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز دی تھی، جو آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اسٹرکچرل بینچ مارک تھا۔ تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر آئی ایم ایف کو قائل کیا گیا کہ زرعی شعبے کو ٹیکس سے مستثنا رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے کسانوں کو قرضوں کی فراہمی کو بجٹ میں ترجیح دی گئی ہے، کیونکہ زرعی معیشت کو مستحکم کرنا حکومتی پالیسی کا حصہ ہے۔
ٹیکس اصلاحات اور قانون سازی کی ضرورت
وزیر خزانہ نے اعتراف کیا کہ گزشتہ برس اضافی ٹیکسز عائد کرنے پڑے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ٹیکس نفاذ کے نظام پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال ٹیکس نفاذ سے 400 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال ٹیکس برآمدات کی جی ڈی پی شرح 10.3 فیصد ہے، جو اگلے سال 10.9 فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مجوزہ 22 کھرب روپے کے محصولات میں سے صرف 312 ارب روپے اضافی ٹیکسز پر مشتمل ہیں، باقی آمدن خود کار ترقی اور بہتر نفاذ سے حاصل کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس نظام میں موجود لیکجز کو روکنے اور مزید آمدن کے لیے پارلیمان سے قانون سازی اور ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ اضافی 400 سے 500 ارب روپے کے بوجھ سے بچا جا سکے۔
Discussion about this post