بالغ ہونے کی عمر سے پہلے شادی کے خلاف قانون سازی کی ایک تاریخی پیش رفت کے طور پر، صدر مملکت آصف علی زرداری نے "اسلام آباد چائلڈ میرج ریسٹرینٹ بل 2025” پر دستخط کر دیے، جس کے بعد یہ قانون بن چکا ہے۔ یہ بل پاکستان میں بچوں کے حقوق، بالخصوص کم عمر شادیوں کے خاتمے کے لیے ایک نمایاں سنگ میل سمجھا جا رہا ہے۔
بل کی اہم شقیں:
-
18 سال سے کم عمر بچی سے شادی کرنے والے شخص کو 3 سال تک قید بامشقت کی سزا دی جائے گی۔
-
18 سال سے کم عمر بچے یا بچی کو شادی پر مجبور کرنے والے کو 7 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
-
بچے کی شادی کے لیے انسانی اسمگلنگ (ٹریفکنگ) پر 7 سال قید اور جرمانہ کی سزا رکھی گئی ہے۔
-
شادی میں معاونت کرنے والے کو 3 سال قید اور جرمانہ ہوگا۔
-
18 سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی کا نکاح پڑھانے والے نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
بل کی منظوری کی راہ:
-
یہ بل سینیٹ میں سینیٹر شیری رحمٰن اور قومی اسمبلی میں شرمیلا فاروقی نے پیش کیا۔
-
بل کو دونوں ایوانوں سے منظوری ملنے کے بعد 27 مئی کو ایوانِ صدر بھیجا گیا۔
-
صدر زرداری نے تمام مخالفتوں کے باوجود اس پر دستخط کرکے اسے قانونی حیثیت دے دی۔
مخالفت اور تنقید:
-
اسلامی نظریاتی کونسل نے اس بل کو غیر اسلامی قرار دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی کو ریپ قرار دینا شریعت کے خلاف ہے۔
-
مولانا جلال الدین (جماعت علمائے اسلام ف) نے اسے معاشرتی انتشار اور مغربی سازش سے تعبیر کیا۔
-
کونسل نے اعتراض کیا کہ بل کو ان کے مشورے کے بغیر پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا، جو بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔
بل کے حامیوں کا مؤقف:
-
شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ قانون سازی بچوں اور بچیوں کے تحفظ کی جیت ہے، جس کے لیے طویل اور صبرآزما جدوجہد کی گئی۔
-
شرمیلا فاروقی نے مؤقف اپنایا کہ ہم شادیوں کے خلاف نہیں، لیکن 13 یا 14 سال کی بچیوں کو دلہن بنانا سراسر ناانصافی ہے، خاص طور پر جب ان کے پاس ووٹ ڈالنے یا شناختی کارڈ لینے کا بھی اختیار نہیں۔
-
شرمیلا نے وفاقی شرعی عدالت کے 2022 کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا، جس میں ریاست کو شادی کی کم از کم عمر مقرر کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
Discussion about this post