بھارت کی بڑھتی ہوئی جنگی جارحیت اور بے بنیاد الزامات پر عسکری قیادت کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی واضح اور دوٹوک پیغام دے دیا۔ قومی اسمبلی نے پہلگام واقعے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر بھارت کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کر لی، جس میں باور کرایا گیا کہ اگر بھارت نے کوئی بھی مہم جوئی کی تو اسے 27 فروری 2019 جیسا منہ توڑ جواب ملے گا۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جہاں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی، جسے ایوان نے منظور کرلیا۔ بعد ازاں سندھ طاس معاہدے پر بھارتی خلاف ورزیوں اور پروپیگنڈے کے خلاف باقاعدہ بحث کی تحریک بھی پیش کی گئی، جو متفقہ طور پر منظور ہوئی۔
اجلاس کے دوران بزنس ایڈوائزری کمیٹی نے پہلگام واقعے اور آبی جارحیت کی شدید مذمت کی، جب کہ وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے ایک جامع قرارداد پیش کی، جسے تمام پارلیمانی جماعتوں نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔ قرارداد میں قومی اسمبلی نے واضح کیا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے اور بھارتی الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ دوٹوک پیغام دیا گیا کہ اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی مذموم قدم اٹھایا، تو اس کا جواب فیصلہ کن ہوگا، اور قومی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ایوان نے بھارت کے اشتعال انگیز بیانات، سندھ طاس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں اور پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات کو سختی سے مسترد کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کے خاتمے کا اختیار نہیں رکھتا، اور اگر پاکستان کے پانی کو روکا گیا تو یہ کھلی جارحیت اور اعلان جنگ تصور کیا جائے گا۔قومی اسمبلی نے واضح کیا کہ پاکستان کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی بھرپور اور غیر متزلزل حمایت جاری رکھے گا، اور بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی فورمز پر اٹھایا جاتا رہے گا۔اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان بارہا آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر چکا ہے، اور دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشتگردی کا سب سے بڑا نشانہ رہا ہے، اس لیے ہمیں درس نہ دیا جائے۔
تحریک انصاف کے رکن عامر ڈوگر نے قرارداد کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملکی سلامتی کے لیے ہم سب ایک ہیں، جس پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا تنویر حسین نے کہا کہ آج اس ایوان سے متحد پیغام جانا چاہیے تاکہ بھارت کو واضح اشارہ مل جائے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اپنی خودمختاری کے معاملے پر ایک پیج پر ہے۔
Discussion about this post