امریکی شہر لاس اینجلس میں امیگریشن چھاپوں کے خلاف جاری مظاہرے اُس وقت پرتشدد صورت اختیار کر گئے جب مظاہرین نے رات کے اندھیرے میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کا آغاز کر دیا، جس کے بعد شہر کی میئر کیرن باس نے ہنگامی حالت کے نفاذ اور ڈاؤن ٹاؤن علاقے میں کرفیو کا اعلان کر دیا۔ میئر کے مطابق، کرفیو منگل کی شب رات آٹھ بجے سے صبح چھ بجے تک نافذ العمل رہا، جس کا اطلاق شہر کے ایک مخصوص علاقے تقریباً 2.5 مربع کلومیٹر پر ہوا۔ کرفیو کے دوران صرف رہائشیوں، صحافیوں اور ہنگامی خدمات سے وابستہ افراد کو آمد و رفت کی اجازت دی گئی۔ میئر کیرن باس نے واضح کیا کہ اس اقدام کا مقصد "شہر کو انتشار، لوٹ مار اور تشدد سے بچانا” ہے۔ مظاہرے ابتدائی طور پر پرامن تھے، مگر جیسے ہی رات کا اندھیرا چھایا، بعض عناصر نے توڑ پھوڑ، دیوار نویسی، آگ زنی اور دکانوں پر حملے شروع کر دیے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق، پیر کی شب 23 کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور حالیہ دنوں میں 500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ امیگریشن حکام کی جارحانہ کارروائیاں اور تارکین وطن کی گرفتاری ہی موجودہ بے چینی کی اصل وجہ ہے۔ دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صورت حال کو "غیر ملکی دشمنوں کی دراندازی” قرار دیتے ہوئے لاس اینجلس میں 4,000 نیشنل گارڈز اور 700 حاضر سروس میرینز تعینات کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ انہوں نے فورٹ بریگ کے دورے کے دوران کہا:
"یہ حملہ امن، قومی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی پر ہے۔ ہم کسی شہر کو غیر ملکی دشمن کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دیں گے۔”
صدر کے اس بیان پر کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ:
"صدر کا طرزِ عمل جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ ہے۔ ہم اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے، نہ کہ انہیں عسکری طاقت سے دبایا جائے۔”
مظاہروں کا دائرہ کار لاس اینجلس کے علاوہ دیگر بڑے شہروں جیسے نیویارک، اٹلانٹا، شکاگو اور سان فرانسسکو تک بھی پھیل چکا ہے، جہاں شہری امیگریشن پالیسیوں اور حکومتی جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے گورنر نے وفاقی سطح پر ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور محکمۂ دفاع کے خلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ مقدمہ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف دائر کیا گیا ہے، جس کے تحت سینکڑوں امریکی میرینز کو لاس اینجلس میں تعینات کر دیا گیا۔ غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق، صدر ٹرمپ کی جانب سے امیگریشن چھاپوں کے خلاف جاری مظاہروں سے نمٹنے کے لیے فوجی مداخلت کا حکم جاری کیا گیا، جس پر کیلیفورنیا کے گورنر نے سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے "جمہوریت پر حملہ” اور "طاقت کا غیر آئینی استعمال” قرار دیا۔
Discussion about this post