جب بات ماحولیاتی تحفظ کی ہو، تو اکثر لوگ درختوں، بارشوں یا عالمی حدت کی بات کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ساحلی درخت، جنہیں ہم "مینگروز” کہتے ہیں، ہمارے بقا کے لیے کتنے ضروری ہیں؟ خاص طور پر کراچی جیسے شہر کے لیے، مینگروز صرف درخت نہیں بلکہ زندگی کی دیوار ہیں جو سمندر اور انسان کے بیچ کھڑی ہے۔ مینگروز وہ خاموش محافظ ہیں جو کراچی جیسے ساحلی شہروں کے وجود کے لیے لازمی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان کی اہمیت کو ہم نے ہمیشہ نظرانداز کیا۔ یہ درخت، جو نمکین پانی میں اُگتے ہیں، سمندر اور زمین کے درمیان ایک قدرتی دیوار کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کی جڑیں مٹی کو باندھے رکھتی ہیں، سمندری طوفانوں کی شدت کو کم کرتی ہیں اور ہزاروں آبی مخلوقات کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنتی ہیں۔ مینگروز نا صرف ساحلی زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں بلکہ فضاء سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے گلوبل وارمنگ کے خلاف جنگ میں خاموش سپاہی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب کراچی کا ساحل گھنے مینگروز کے جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا۔
ماہی گیر ان درختوں کے درمیان کشتی رانی کرتے تھے، سمندری پرندے ان کی شاخوں میں بسیرا کرتے اور یہ پورا ماحولیاتی نظام ایک حسین توازن کا نمونہ تھا۔ مگر پھر انسان کی لالچ اور غفلت نے اس نظام کو تباہ کر دیا۔ بڑھتی ہوئی آبادی، غیر منصوبہ بند تعمیرات، صنعتی فضلہ، زمینوں پر قبضے اور مینگروز کی بے دریغ کٹائی نے وہ منظر مٹا دیا جو کراچی کی پہچان ہوا کرتا تھا۔ صرف چند دہائیوں میں مینگروز کا رقبہ آدھے سے بھی کم رہ گیا، اور اس کے اثرات کراچی کے موسم، ماحولیاتی توازن اور مچھلیوں کی پیداوار پر واضح طور پر محسوس ہونے لگے۔ ایسے وقت میں جب حکومتی ادارے یا تو بے بس تھے یا غافل، ایک شخص نے آگے بڑھ کر یہ بیڑا اٹھایا کہ کراچی کو دوبارہ سانس لینے کے قابل بنایا جائے۔ یہ شخص مسعود لوہار ہے، جس نے کلفٹن کے بنجر اور کچرے سے بھرے علاقے میں شہری جنگل لگانے کی تحریک شروع کی۔ انہوں نے درخت لگانے کو صرف ایک ماحولیاتی عمل نہیں، بلکہ ایک عوامی شعور کی تحریک بنا دیا۔ وہ مانتے ہیں کہ اگر شہریوں نے خود درخت نہ لگائے اور اپنی زمین کا خیال نہ رکھا، تو کوئی حکومت یا ادارہ اس شہر کو بچا نہیں سکتا۔ ان کے کلفٹن اربن فاریسٹ منصوبے میں آج ہزاروں درخت لگ چکے ہیں، ہزاروں لوگ رضاکار بن کر شامل ہو چکے ہیں، اور نئی سوچ جنم لے رہی ہے۔
مگر یہ کام صرف مسعود لوہار یا چند کارکنوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ درخت لگانا، درخت بچانا اور ان کے پیچھے سوچ پیدا کرنا، یہ سب اب ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ جب تک عوام خود مینگروز جیسے قیمتی ماحولیاتی اثاثوں کو نہیں اپنائیں گے، یہ سلسلہ رکے گا نہیں۔ ہمیں اسکولوں، یونیورسٹیوں، دفاتر اور گلی محلوں میں ایسی گفتگو کو عام کرنا ہوگی جو لوگوں کو شجرکاری کی طرف راغب کرے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو ماحولیاتی سفیر بنانا ہوگا، تاکہ وہ اپنی نسل کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کا بھی دفاع کریں۔ حکومت کو اب صرف بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرنے کی شخت ضرورت ہے۔ قانون سازی، ساحلی ترقی کے منصوبوں کی از سر نو جانچ، صنعتی آلودگی پر سخت پابندیاں اور ماحولیاتی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانا، یہ سب اب وقت کی ضرورت ہے۔ کراچی جیسے شہر کو بچانے کے لیے صرف پانی، بجلی اور سڑکیں کافی نہیں، درخت، خاص طور پر مینگروز جیسے ساحلی جنگلات، اتنے ہی ضروری ہیں جتنی کسی شہر کی بنیادی سہولیات۔
یہ جنگ صرف درختوں کی نہیں، یہ جنگ ہماری سانسوں، ہماری حفاظت، اور ہماری نسلوں کے مستقبل کی ہے۔ اگر ہم آج نہ جاگے تو کل ہمیں ایسی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا جو صرف خبروں میں نہیں، ہماری روزمرہ زندگیوں میں ہوں گی۔ مسعود لوہار اور ان جیسے کئی ماحولیات کے ماہرین نے راستہ دکھا دیا ہے، اب ہمیں اپنے حصے کا قدم اٹھانا کی ضرورت ہے۔
Discussion about this post