بھارتی شاعر اور مصنف جاوید اختر ایک بار پھر متنازعہ بیان دے کر خبروں کی زینت بن گئے، مگر اس بار اُن کے الفاظ نے پاکستان میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی کے دوران جاوید اختر نے خود کو دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت سے تنقید کا نشانہ بنتے ہوئے ظاہر کیا اور ایک اشتعال انگیز جملہ کہہ دیا کہ اگر مجھے پاکستان اور جہنم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو، تو میں جہنم جانا پسند کروں گا۔ تقریب کے شرکاء نے اس بیان پر تالیاں بجائیں، مگر جب یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، تو پاکستانی عوام نے شدید غصے کا اظہار کیا۔ صارفین نے انہیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ "اگر یہی آپ کا انتخاب ہے، تو آپ واقعی جہنم کے ہی مستحق ہیں۔ اس بیان پر پاکستان کی کئی ممتاز شخصیات نے کھل کر ردعمل دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے اس بیان کو "نفرت انگیز اور اشتعال پھیلانے والا” قرار دیا اور کہا کہ جاوید اختر جیسے لوگ اپنی شہرت کے سائے میں عقل کھو بیٹھتے ہیں۔ نفرت کا بیانیہ کبھی بھی انسانیت کے حق میں نہیں ہوتا۔ اداکارہ ژالے سرحدی نے کہا کہ ہم امن کی بات کرتے ہیں، دوستی کی خواہش رکھتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی خودداری پر سمجھوتا کریں گے۔

"قدموں میں بیٹھنے والوں کا حساب بھی ہوگا”
اس موقع پر کچھ پاکستانی فنکاروں نے اپنی ہی شوبز برادری کے ان افراد پر بھی سوال اٹھائے، جو جاوید اختر کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرتے دکھائی دیے۔اداکارہ مشی خان کا جملہ تو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی کہ جاوید صاحب واپس جاتے وقت ان سب کو بھی ساتھ لے جائیں جو پاکستان میں ان کے قدموں میں بیٹھے تھے۔ جبکہ عمران عباس نے نہایت شائستہ انداز میں مگر واضح تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اُنہیں یہاں آ کر عزت دی، سراہا، اور فرسٹ کلاس مہمان نوازی دی مگر وہ اس کے اہل نہیں نکلے۔ جاوید اختر کا بیان صرف ایک فرد کا غصہ نہیں، یہ اُس سوچ کی عکاسی ہے جو نفرت کو قومی بیانیہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
Discussion about this post