فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے واضح کیا ہے کہ وہ خواتین جو گھروں سے محدود پیمانے پر کاروبار کر رہی ہیں، یا ایسے افراد جو یک وقتی بنیادوں پر تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، انہیں لازمی رجسٹریشن کے تقاضوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ یہ اہم وضاحت ایف بی آر کے چیئرمین رشید محمود لانگریال نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کے اجلاس کے دوران دی، جہاں حالیہ وفاقی بجٹ 2025-26 پر غور کیا جا رہا تھا۔ چیئرمین ایف بی آر نے واضح کیا کہ اگرچہ ای کامرس کے دائرہ کار میں آنے والی اشیاء پر سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی ہے، تاہم اس کا اطلاق گھریلو پیمانے پر کاروبار کرنے والی خواتین اور چھوٹے درجے کے یک وقتی فروشندگان پر نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا،
"ایف بی آر کا مقصد صرف بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کو روکنا ہے، چھوٹے تاجروں، بالخصوص خواتین کو سہولت دینا ہماری ترجیح ہے۔”
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق اب کورئیر سروسز کو ٹیکس کلیکشن ایجنٹس مقرر کیا جائے گا کیونکہ وہ آن لائن کاروبار کرنے والوں کی فروخت کی تفصیلات رکھتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اکثر آن لائن فروشندگان صارف سے ٹیکس تو وصول کر لیتے ہیں، لیکن ایف بی آر کو جمع نہیں کرواتے۔ حکومت کی مجوزہ پالیسی کے تحت اب غیر ملکی ای کامرس کمپنیاں جو پاکستانی صارفین کو اشیاء فروخت کرتی ہیں، ان کے لیے بھی ایف بی آر میں رجسٹریشن لازمی ہوگی۔ اس اقدام کا مقصد ڈیجیٹل معیشت کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے۔
اجلاس میں ٹیکس چوری کے معاملات، گرفتاریوں اور سزاؤں سے متعلق مجوزہ ترامیم پر بھی بحث کی گئی۔ فنانس بل کے تحت دس سال قید اور ایک کروڑ روپے سے زائد فراڈ پر بھاری جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔ سینیٹرز نے ایف بی آر افسران کو حاصل گرفتاری کے اختیارات پر تحفظات کا اظہار کیا، جس پر چیئرمین ایف بی آر نے وضاحت دی کہ اب گرفتاری سے قبل انکوائری اور کمشنر کی منظوری لازمی ہوگی۔ وزیرِ مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے اس ترمیم کو "شفافیت کی جانب اہم پیشرفت” قرار دیا۔ کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق فنانس بل 2025-26 پر آج بھی تفصیلی غور و خوض جاری رہے گا، اور ایف بی آر چیئرمین نے متعلقہ شقوں کا نظرثانی شدہ مسودہ پیش کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
Discussion about this post