تار
English
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے
No Result
View All Result
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے
No Result
View All Result
No Result
View All Result
تار

خواتین سیاست دان اسٹائل آئیکون ہوں تو تنقید ضروری ہے؟

by ویب ڈیسک
اکتوبر 20, 2021
خواتین سیاست دان اسٹائل آئیکون ہوں تو تنقید ضروری ہے؟
Share on FacebookShare on Twitter

اسٹائل آئیکون یا جدید فیشن کا ذکر آتے ہی ذہن میں کسی ماڈل یا اداکارہ کا تصور جگمگانے لگتا ہے اور لباس و انداز بھی ایسا کہ کوئی تبصرہ کیے بغیر رہ ہی نہ پائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی فیشن نے اپنی جگہ بنائی ، وہ دور ختم ہوا جب عوامی رہنمائی کے لیے خواتین کو سادہ لباس، ساڑھی یا شلوار قمیض ہی پہننے پر زور دیا جاتا تھا اب بیشتر رہنماوں کی نظر میں انٹرنیشنل برانڈ کا استعمال ہی جدید فیشن ہے  ۔اب چاہے مریم نواز ہوں یا حنا پرویز بٹ، حنا ربانی کھر یا شرمیلا فاروقی۔ یہ خواتین سیاست دان جہاں شعلہ بیان مقرر ہیں وہیں ان کے ملبوسات، ان کے زیر استعمال اشیا موضوع بحث رہتی ہیں۔ کبھی ان کے قیمتی کپڑے تو کبھی ان کے برانڈڈ شوز عوام کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔

حسن پر بھی تنقید، مگر کیوں؟
خواتین سیاستدانوں کے فیشن اور گلیمر میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ صرف برانڈز متعارف ہونے لگے ہیں۔ اب اگر مریم نواز کے ہاتھوں میں بیگ ہو تو وہ معمولی نہیں ہوگا۔ وہیں اُن کی سینڈل، لباس، انگوٹھی، گھڑی سب برانڈڈ ہوگی۔

بشکریہ ٹوئٹر

عموماً سیاسی جلوسوں یا کانفرنسز میں مریم نوازکے لباس اور ان کے بیش قیمت جوتے مرکز نگاہ رہتے ہیں موقع کی مناسبت سے مشہور انٹرنیشنل برانڈ ”منولو بلہینک “ہو گوچی یا ’ڈیور‘کا انتخاب، تصویر سوشل میڈیا پر آتےہی مخالفین قیمت گوگل کرنا شروع کرتےہیں۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Hina Parvez Butt (@hinaparvezbutt)

کچھ ایسا ہی معاملہ حنا پرویز بٹ کا بھی ہے۔ جو باقاعدہ فیشن ڈیزائننگ کا کورس کیے ہوئے ہیں اور ایک ماہر ڈیزائنر کے طور پر اپنا کامیاب برانڈ چلا رہی ہیں، اپنے عمدہ لباس اور پرکشش انداز کے باعث ملک کے نامور ماڈلز اور ڈیزائنر کو گلیمر کی دنیا میں مات دیتی ہوئی دکھائی نظر آتی ہیں۔ حنا پرویز بٹ کا شمار پاکستان کی خوبصورت سیاسی خواتین میں ہوتا ہے۔

بشکریہ سوشل میڈیا

اسطرح شرمیلا فاروقی کے سادہ اور عمدہ لباس، شیری رحمان کے قیمتی زیورات یا پھر زرتاج گل کے خوبصورت اندازکی تو فیشن کے تقاضوں میں یہ سیاسی خواتین کسی طرح ماڈلز سے کم نہیں ہیں۔ اس اعتبار سے خاتون اول بشری بی بی انتہائی سادگی کے ساتھ باحجاب تو رہتی ہیں لیکن ان کے بارے میں بھی یہ تاثر یہی ہے کہ ان کے عبایا اور حجاب کی تیاری میں خطیر رقم کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی حسن کا تعلق آپکے انتخاب سے بھی ہے اوراس کی تعریف یا تنقید، پسندیدگی اور ناپسندیگی کی بنا پر ہوتی ہے۔

بشکریہ ٹوئٹر

ماضی کی سیاسی خواتین
فیشن کے بدلتے ادوار ماضی میں بھی پاکستانی سیاسی خواتین کا حصہ بنے رہے ہے، پاکستان کی پہلی خاتون اول بیگم رعنا لیاقت نفیس ساٹن اور سلک کی قمیض شلوار زیب تن کرکے اور پر اعتماد شخصیت کی بناء پر تحریک پاکستان سے لیکر بطور خاتون اول مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں، مادر ملت فاطمہ جناح کی تنگ کرتی اورغرارے نے انکو ایک الگ ہی پہچان دی تھیں جنھوں نے عالمی سطح پر بھی اپنی اسی شناخت کو برقرار رکھا، اسی طرح جب بے نظیر بھٹو نے پاکستانی سیاست میں قدم رکھا تو مشرقی لباس نے ایک نیا روپ دھارا، سر پردوپٹہ اور لمبی فراکس نے ان کی شخصیت کو متاثر کن بنادیا تھا جس کا اثر آج کی کئی سیاسی خواتین پر طاری ہے، ان کی شخصیت کے رنگ بیشتر خواتین نے اپنائے بھی ہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بے نظیر بھٹو کا سراپا اُس دور کی خواتین کے لیے بھی آئیڈل بنا۔

بشکریہ ریڈیو پاکستان

انکے ملبوسات پاکستان کے علاوہ غیرملکی ڈیزائنر نے ڈیزائن کیے، انکی بیٹی بختاور بھٹو نے اپنی ڈھولکی میں والدہ کے نکاح کا جوڑا پہنا تھا جو آج سے ٹھیک 33 برس قبل پہلے 1987 میں کراچی کے ایک معروف بوتیک ’ریشم رواج‘ نے تیار کیا تھا۔ جس پر سبز رنگ پر سُرخ زردوزی کا کام کیا گیا تھا۔  یہ ایک روایتی غرارہ تھا جو ریشم سے بنایا گیا تھا۔

بشکریہ انٹرنیشنل میڈیا

کیا لباس پر تنقید یا تعریف مناسب ہے؟
لباس انسان کی شخصیت کا وہ نمایاں پہلو ہے جسے کسی سے بھی نہیں چھپایا جاسکتا۔ ہمیں یہ ماننا پڑتاہے کہ لوگ ہمیں ہمارے لباس سے پہچانتے ہیں اور اکثر ہمارے ساتھ ہمارے لباس کی بنیاد پر برتاوکرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ لباس کسی کا کردار، ذہانت اور عقل و فہم طے نہیں کرسکتا ۔ اکثر خواتین سیاستدانوں پر ان کے لباس کی وجہ سے تنقید ہوتی یا انکی تعریف کی جاتی ہے جبکہ مرد حضرات کے کپڑوں جوتوں اور استعمال کی دیگر اشیا کو عموما موضوع بحث نہیں بنا یا جا تا ۔

Tags: برانڈڈبے نظیر بھٹوحنا پرویز بٹڈیزائنرفیشنمریم نواز
Previous Post

رپورٹر کا موبائل فون چھیننا مہنگا پڑ گیا

Next Post

بھارت کی شہ رگ چین کے ہاتھ میں، مودی کے ہوش اڑ گئے

Next Post
بھارت کی شہ رگ چین کے ہاتھ میں، مودی کے ہوش اڑ گئے

بھارت کی شہ رگ چین کے ہاتھ میں، مودی کے ہوش اڑ گئے

Discussion about this post

تار

  • ہمارے بارے میں
  • پرائیویسی پالیسی

No Result
View All Result
  • پاکستان
  • جہاں نامہ
  • صنف
  • ادب
  • اینٹرٹینمٹ
  • ویڈیوز
  • کھیل
  • کاروبار
  • صحافت
  • تجزیئے

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In

Add New Playlist